وہ تو پتھر پہ بھی نہ گذرے خدا ہونے تک (احمد فراز)

وہ تو پتھر پہ بھی نہ گذرے خدا ہونے تک

جو سفر  میں نے نہ ہونے سے کیا ہونے تک

زندگی اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری

بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک

مانگنا اپنے خدا سے بھی ہے دریوزہ گری

ہاتھ پتھرا نہ گئے دستِ دعا ہونے تک

اب کوئی فیصلہ ہو بھی تو مجھے کیا لینا

میں تو عمروں سے ہوں مصلوب سزا ہونے تک

دستِ قاتل سے ہوں نادم کہ لہو کو میرے

عمر لگ جائی گی ہم رنگِ حنا ہونے تک

دشت سے قلزمِ خوں تک کی مسافت ہے فراز

قیس سے غالبِ آشفتہ نوا ہونے تک

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *