اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں (جگر مراد آبادی)

اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں 
آ اے غمِ محبت ! تجھ کو گلے لگائیں

بیٹھا ہوں مست و بےخُود، خاموش ہیں فضائیں
کانوں میں آ رہی ہیں بُھولی ہوئی صدائیں

سب اُن پہ ہیں تصدّق، وہ سامنے تو آئیں
اشکوں کی آرزُوئیں، آنکھوں کی اِلتجائیں

عُشاق پا رہے ہیں ہر جُرم پرسزائیں
انعام بٹ رہے ہیں، مغرُور ہیںخطائیں

اُس سے بھی شوخ تر ہیں، اُس شوخ کی ادائیں
کر جائیں کام اپنا، لیکن نظر نہ آئیں

اُس حُسنِ برق وش کے دل سوختہ وہی ہیں
شعلوں سے بھی جو کھیلیں، دامن کو بھی بچائیں

عاشق خرابِ ہستی، زاہد خرابِ تمکیں
آتی ہیں میرے دل سے لب تک وہی دُعائیں

اِک جامِ آخری تو پینا ہے اور ساقی
اب دستِ شوق کانپے یا پاؤں لڑکھڑائیں

اب ہاتھ مل رہے ہیں، وہ خاکِ عاشقاں پر
برباد کر چکے جب اپنی ہی کچھ ادائیں

آلوُدہ خاک ہی تُو رہنے دے اُس کو ناصح
دامن اگر جھٹک دُوں، جلوے کہاں سمائیں

بیتابئ محبت، وجہِ سُکونِ غم ہے
آغوشِ مُضطرب میں خوابیدہ ہیں بلائیں

اشعار بن کے نکلیں جو سینۂ جِگر سے
سب حسنِ یار کی تھیں، بےساختہ ادائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *