بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں (میر تقی میر)

بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں

پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا

قصدِ طریقِ عشق کیا سب نے بعد قیس

لیکن ہوا نہ ایک بھی اُس رہ نورد سا

کیا میر ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا

نم ناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا

کس شام سے اُٹھا تھا مرے دل میں درد سا

سو ہوچلا ہوں پیش تر از صبح سرد سا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *