زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
اور چاہیں کہ چھپا لیں تو چھپائے نہ بنے
ہائے بیچارگئی عشق کہ محفل میں
سر جھکائے نہ بنے آنکھ اٹھائے نہ بنے
یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی
ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے
کس قدر حسن بھی مجبورِ کشاکش ہے کہ آج
منہ چھپائے نہ بنے سامنے آئے نہ بنے
ہائے وہ عالمِ پُرشوق کہ جس وقت جگر
اُس کی تصویر بھی سینے سے لگائے نہ بنے