کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے
روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں
گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے
جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں
جاں کاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں
بے تاب دل کسو کا رکھا ہے کیا جرس میں
اب لاغری سے دے ہیں ساری رگیں دکھائی
پر عشق بھر رہا ہے اک آگ میری نس میں
اے ابر! ہم بھی برسوں روتے پھرا کیے ہیں
دریا بندھے پڑے ہیں وادی کے خار و خس میں
کیا میر بس کرے ہے اب زاری آہِ شب کی
دل آ گیا ہے اُس کا ظالم کسو کے بس میں