ہو جائے جب تم سےشناسائی ذرا اور
بڑھ جائے شاید مری تنہائی ذرا اور
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ سن نہ لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور
تردید تو کر سکتا تھا پھیلے مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور