اچھے عیسٰی ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
بھولے پن سے دمِ رخصت یہ سوال اچھا ہے
ہاتھ سینے پہ ہے کیوں دل کا تو حال اچھا ہے
غم میں گزرے تو برا عیش میں گزرے تو بھلا
نہ برا ہے کوئی دنیا میں نہ سال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
یادِ وصل آئی تو دل سے یہ کہا حسرت نے
اس کو سینے سے لگا رکھ یہ خیال اچھا ہے
دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بے تابی کو
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے