سرگوشی
تمہیں کیا ہو گیا ہے
بتاؤ تو سہی اے جان جاں! جانانِ جاں!
آخر تمہیں کیا وہ گیا ہے
اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے ہو، اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو
اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو
بتاؤ تو سہی آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے
چلو ہم نے مانا یہ زمانہ اب ہمارے اور تمہارے
بس سے باہر ہو گیا ہے
ان دنوں میں بے حسی کے موسموں میں دل کا خوں ہونا
مقدر ہو گیا ہے
مگر اس قہرماں بستی میں دو آنکھیں تو ایسی ہیں کہ جن میں
کوئی اندیشہ نہیں ہے اور جن کے خواب یکساں ہیں
بہت مدہم سی تعبیر کا امکان تو ہے
یہ شب گزرے نہ گزرے صبح پر ایمان تو ہے
تو پھر اے جانِ جاں ویراں کیوں ہو
اس قدر شاداب آنکھیں جب دعا گو ہیں
تو اتنے بے سرو سامان کیوں ہو
بتاؤ تو سہی اے جانِ جاں آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے
اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے پو
اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو
اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو!