دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں
دیر نہیں حرم نہیں ، در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ، پردے میں منہ چھپائے کیوں
قید و حیاتِ بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں
واں وہ غرور و عزوناز، یاں یہ حجابِ پاسِ وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں
ہاں! وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا ، کیجیئے ہائے ہائے کیوں