پھر مجھے دیدۃ تر یاد آیا
دل، جگر تشنئہ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا، یعنی
پھر وہ نیریگِ نظر یاد آیا
عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ مگر یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا