حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے (امجد اسلام امجد)

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے.
تمہیں نکال کہ دیکھا تو سب خسارہ ہے.

کس چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم.
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے.

وہ کیا وصل کا لمحہ تھا جس کے نشے میں.
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارہ ہے.

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے.
نجانے ہم ہیں دوبارہ کہ یہ دوبارہ ہے.

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں.
ہر اک حسن کسی حسن کا اشارہ ہے.

عجب اصول ہیں اس کاروبار دنیا کے.
کسی کا قرض کسی اور نے اتارا ہے.

کہیں پہ ہے کوئی خوشبو کہ جس کے ہونے سے.
تمام عالم موجود استعارا ہے.

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے.
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

. یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے، ہم تم.
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *