دلِ وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرنا ہے
کہ اب اس سے ملاقاتوں میں کچھ تاخیر کرنا ہے
مرے پچھلے بہانے اس پہ روشن ہوئے جاتے ہیں
سو اب مجھ کو نیا حیلہ نئی تدبیر کرنا ہے
کماں داروں کو اس سے کیا غرض کہ پہنچے کہ رہ جائے
انہیں تو بس اشارے پر روانہ تیر کرنا ہے
ابھی امکان کے صفحے بہت خالی ہیں دنیا میں
مجھے بھی ایک نوحہ جا بجا تحریر کرنا ہے