کیا صبا کوچئہ دلدار سے تو آتی ہے
مجھ کو اپنے دلِ گم گشتہ کی بو آتی ہے
صاف ہے سینہ ہمارا کہ دل ہے نہ جگر
کیا صفائی تجھے اے آئینہ رو آتی ہے
نہ کیا تو نے کبھی غیر کا شکوہ ہم سے
بات کہنے ہی میں اے عربدہ جو آتی ہے
ہو رسا آہ تو کیا جانے کہاں تک پہنچے
نارسائی میں تو یہ عرش کو چھو آتی ہے
تیری تلوار نے بھی چال اڑائی تیری
کھینچ کے آتی ہے جب تا بہ گلو آتی ہے
دشمنی ختم ہوئی ایک وفا دشمن پر
دوستی تجھ کو تو اے میرے عدو آتی ہے
تلخئی موت کو وہ فرہاد کی کیا جانے
منہ سے ابھی شیریں کے دودھ کی بو آتی ہے
شجرِ خشک تو ہر سال ہرے ہوتے ہیں
جا کر اے عمر جوانی کہیں تو آتی ہے
دل اگر صاف نہ ہو پاک نہ ہو گا انساں
یوں تو ابلیس کو بھی شرطِ وضو آتی ہے
جانتا ہوں کہ یہی دشمنِ جاں ہے میرا
اس کے خنجر سے مجھے خون کی بو آتی ہے
محفلِ یار میں اے داغ سوا حسرت کے
کب ہمیں کیفیتِ جام و صبو آتی ہے