کب سے ہم لوگ اس بھنور میں ہیں
اپنے گھر میں ہیں یا سفر میں ہیں
یوں تو اڑنے کو آسماں ہیں بہت
ہم ہی آشوبِ بال وپر میں ہیں
زندگی کے تمام تر رستے
موت ہی کے عظیم ڈر میں ہیں
اتنے خدشے نہیں ہیں رستوں میں
جس قدر خواہشِ سفر میں ہیں
سیپ اور جوہری کے سب رشتے
شعر اور شعر کے ہنر میں ہیں
سایئہ راحتِ شجر سے نکل
کچھ اڑانیں جو بال وپر میں ہیں
عکس بے نقش ہو گئے امجد
لوگ پھر آئینوں کے ڈر میں ہیں