کوئی موسم ہو، دل میں ہے تمہاری یاد کا موسم
کہ بدلا ہی نہیں جاناں تمہارے بعد کا موسم
نہیں تو آزما کے دیکھ لو کیسے بدلتا ہے
تمہارے مسکرانے سے دلِ ناشاد کا موسم
صدا تیشے سسے جو نکلی، دلِ شیریں سے اٹھی تھی
چمن خسرو کا تھا مگر رہا فرہاد کا موسم
پرندوں کی زباں بدلی کہیں سے ڈھونڈ لے تو بھی
نئی طرزِ فغاں اے دل کہ ہے ایجاد کا موسم
رتوں کا قاعدہ ہے وقت پہ یہ آتی جاتی ہیں
ہمارے شہر میں رک گیا فریاد کا موسم
کہیں سے اس حسیں آواز کی خوشبو پکارے گی
تو اس کے بعد بدلے گا دلِ برباد کا موسم
قفس کے بام و در میں روشنی سی آتی جاتی ہے
چمن میں آ گیا شاید لبِ آزاد کا موسم
نہ کوئی کام خزاں کا ہے نہ خواہش ہے بہاروں کی
ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم