کیا کیا ہمارے خواب تھے، جانے کہاں پہ کھو گئے
تم بھی کسی کے ساتھ ہو، ہم بھی کسی کے ہو گئے
جانے وہ کیوں تھے، کون تھے، آئے تھے کس لئے یہاں
وہ جو فشارِ وقت میں، بوجھ سا ایک ڈھو گئے
اس کی نظر نے یوں کیا گردِ ملالِ جاں کو صاف
ابر برس کے جس طرح، سارے چمن کو دھو گئے
کٹنے سے اور بڑھتی ہے اٹھتے ہوئے سرو کی فصل
اپنے لہو سے اہلِ دل، بیج یہ کیسے بو گئے
جن کے بغیر ایک پل جینا بھی محال تھا
شکلیں بھی ان کی بجھ گئیں، نام بھی ان کے کھو گئے
آنکھوں میں بھر کے رت جگے، رستوں کو دے کے دوریاں
امجد وہ اپنے ہم سفر، کیسے مزے سے سو گئے