سکوں بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا ہے دوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تری یاد مجھ کو سلک گُہر
پرو گئی مری پلکوں میں آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کچھ کہہ رہا ہے پھر مجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سروں میں مدھم پھر
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
وہ ایک لمحہ کہ جب سارے رنگ ایک ہوئے
کسی بہار نے دیکھا نہ ایسا سنگم پھر
بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اسے، لیکن
وہ جاتے جاتے انھیں کر گیا ہے پُرنم پھر