کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا
جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا
کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول کھلا گئی
کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا
وہی خط کے جس پہ جگہ جگہ دو مہکتے ہونٹوں کے چاند تھے
کسی بھولے بسرے سے طاق پہ کہیں تہِ گرد ہو گا دبا ہوا
مجھے حادثوں نے سجا سجا کے بہت حسین بنا دیا
مرے دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا
مرے ساتھ جگنو ہے ہم سفر مگر اس شرر کی بساط کیا
یہ چراغ کوئی چراغ ہے نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا