وہ پرسشِ حال کو آئیں گے بیمار کو یہ خوش فہمی ہے
جذبات کی بے رونق دنیا میں کتنی گہما گہمی ہے
اے گردشِ ساغر! گردشِ دورِ فلک سے مجھ کو خوف نہیں
ایام کے چکر سے ڈرنا، ناشکری ہے، نافہمی ہے
حوروں سے یہ جی بہلائے گا، کوثر سے یہ جام اڑائے گا
میں شیخ کو خوب سمجھتا ہوں، پرلے درجے کا وہمی ہے
اس جلوۂ حیرت زا سے کسبِ نور کا کچھ آساں کام نہیں
دل بیٹھا جاتا ہے، تابِ نظارہ سہمی سہمی ہے
محفل میں نگاہِ ساقی نے ٹوکا تھا تجھے کم خواری پر
ڈر کر رک جانا اے رندِ کم ظرف! تری کم فہمی ہے
یہ کس کے نشمین سے چنگاریاں اڑ کر باغ میں پھیل گئیں
کیوں اپنی حرکت نازیبا پر بجلی سہمی سہمی ہے
پھر کس کی آمد آمد ہے احساس کے حیرت خانے میں
دنیائے خیالِ فطرتؔ میں کیوں آج یہ گہما گہمی ہے