یہ محو ہوئے دیکھ کے بے ساختہ پن کو
آئینے میں خود چوم لیا، اپنے دہن کو
کرتی ہے نیا روز مرے داغِ کہن کو
غربت میں خدا یاد نہ لائے وطن کو
چھوڑا وطن، آباد کیا ملکِ دکن کو
تقدیر کہاں لے گئی یارانِ وطن کو
کیا لطف ہے، جب مونس و یاور نہ ہو کوئی
ہم وادئ غربت ہی سمجھتے ہیں وطن کو
مرجھائے پڑے تھے گلِ مضمون ہزاروں
شاداب کیا ہم نے گلستانِ سخن کو
خدمت میں تری نذر کو کیا لائیں بجز دل
ہم رند تو کوڑی نہیں رکھتے ہیں کفن میں