ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی
آنکھ میں فتنہ گری دل میں شرارت آئی
کہہ گئے آن سے وہ آ کے مرے مرقد پر
سونے والے! تجھے کس طرح سے راحت آئی؟
رکھ دیا ہاتھ مرے منہ پہ شبِ وصل اس نے
بے حجابی کے لیے کام شکایت آئی
جب یہ کھاتا ہے مرا خونِ جگر کھاتا ہے
دلِ بیمار کو کس چیز پہ رغبت آئی
عمر بھر اس کو کلیجے سے لگائے رکھا
تیرے بیمار کو جس درد میں لذت آئی
ہجر میں جان نکلتی نہیں کیا آفت ہے
مار کر آج اجل کو شبِ فرقت آئی
اپنے دیوانوں کو دیکھا تو کہا گھبرا کر
یہ نئی وضع کی کس ملک سے خلقت آئی
جذبِ دل کھینچ ہی لایا انہیں میرے در تک
پاؤں پڑتی ہوئی ہر چند نزاکت آئی
یوں تو پامال ہوئے سینکڑوں مٹنے والے
پہلے گنتی میں جو آئی مری تربت آئی
حشر کا وعدہ بھی کرتے نہیں وہ کہتے ہیں
فرض کر لو جو کئی بار قیامت آئی