باقی نہیں ھے ایک بھی بیمارِ دردِ دِل (مرزا محمد تقی بیگ دہلوی)

باقی نہیں ھے ایک بھی بیمارِ دردِ دِل
کیجیے تو کس کے سامنے اظہارِ دردِ دِل

ہیں اشک میرے گوہر شہوارِ دردِ دِل
آنکھیں ہیں میری دیدۂ خونبارِ دردِ دِل

زندہ رہیں جہاں میں خریدارِ دردِ دِل
ھے ان کے دم سے گرمی بازارِ دردِ دِل

وہ ایک ایسی بزم میں ہوتے ہیں بادہ خوار
ملتا ھے جن کو ساغر سرشارِ دردِ دِل

یوسف سے حوصلہ میں زلیخا تو بڑھ گئی
یہ حسن بن کے خوش ھے وہ آزا رِ دردِ دِل

آتا ھے جو وہاں سے وہ آہ و فغاں لیے
کوچہ میں یار کے نہ ہو بازارِ دردِ دِل

صبر و قرار تاب و تواں دے چکے جواب
غم خوار اب رہا نہ کوئی یارِ دردِ دِل

تھوڑے دنوں اُن کا تصوّر بنا ھے یار
برسوں تو حسرتیں رہیں غم خوارِ دردِ دِل

ہر چند سینے میں ھے ازل سے ترا قلم
پیدا ہوئی نہ میری سی گفتارِ دردِ دِل

ہر دم حریم کعبہ کے لب پر ھے یہ دعا
یا رب مجھے نیا در و دیوارِ دردِ دِل

حیرت ھے کیوں طبیب مری نبض دیکھ کر
پڑھتا ھے سانس سانس میں آزارِ دردِ دِل

گڑ جاتے عرش ترے فرشتے زمیں پر
پڑتا جو تجھ پہ سایہ دیوارِ دردِ دِل

کرتا ہوں کچھ جو عرض تو ملتا ھے یہ جواب
تجھ سا نہیں ھے کوئی گُنہگارِ دردِ دِل

آدم کو دیکھتے ہی فرشتے یہ کہہ اٹھے
جنت میں کیا رہیں گے طلبگارِ دردِ دِل

دنیا میں ایک حضرت ناصح کا دم نہ ہو
کچھ بھی نہیں جو لاکھ ہوں اغیارِ دردِ دِل

بیتابیاں نہیں ہیں مری لوٹ لوٹ کر
طے کر رہا ہوں منزلِ دشوارِ دردِ دِل

ہو کیوں نہ اس کا نالۂ مستانہ درد ناک
مَائلؔ کی ذات پاک ھے میخوارِ دردِ دل

Comments 1

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *