کب ٹھہرے گا درد اے دل ، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہوگی
کب جاں لہو ہو گی ، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے ، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گل ، کب بہکے گا مے خانہ
کب صبحِ سخن ہو گی ، کب شامِ نظر ہو گی
کب تک ابھی راہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی