بے کلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے (اختر ضیائی)

بے کلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے

دل وہ بگڑا ہوا بالک، جو کھلونا چاہے

حسن معصوم ہے پر خواب خزانوں کے بُنے

کبھی ہیرے، کبھی موتی، کبھی سونا چاہے

تجھ سے بچھڑا ہے تو گھائل کی عجب حالت ہے

بیٹھے بیٹھے کبھی ہنسنا، کبھی رونا چاہے

اس بات ناز کو دیکھوں تو میرا ذوقِ نظر

ایک اک نقش میں سو رنگ سمونا چاہے

لاکھ بہلاؤ بھلے وقت کے گلدستوں سے

تلخ ماضی تو سدا خار چبھونا چاہے

کھلی آنکھوں کسی کروٹ، نہ ملے چین اکثر

نیند آئے تو نہ پھر سیج بچھونا چاہے

ایسا بپھرا ہے غمِ زیست کا ساگر اخترؔ

اس کی ہر لہر میری ناؤ ڈبونا چاہے​

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *