وحشت تھی مگر چاک لبادہ بھی نہیں تھا
یوں زخم نمائی کا ارادہ بھی نہیں
خلعت کے لئے قیمتِ جاں یوں بھی بہت تھی
پھر اتنا دلآویز لبادہ بھی نہیں تھا
ہم مرحبا کہتے تیرے ہر تیرِ ستم پر
سچ بات کہ دل اتنا کشادہ بھی نہیں تھا
ہم خون میں نہلائے گئے تیری گلی میں
اور تُو کہ سر بام ستادہ بھی نہیں تھا
یارو! کوئی تدبیر کرو تم کہ وہ ہم سے
ناخوش تھا مگر اتنا زیادہ بھی نہیں تھا
آخر کو تو گُل ہو گئے سورج سے مسافر
اور میں تو چراغِ سرِ جادہ بھی نہیں تھا
پاگل ہو فرازؔ! آج جو رہ دیکھ رہے ہو
جب اس سے ملاقات کا وعدہ بھی نہیں تھا