تبھی تو حالِ زبوں نہیں ہے
یہ عشق میرا جنوں نہیں ہے
جو عینی شاہد ہیں ان سے پوچھو
یہ واقعہ یوں ہے یوں نہیں ہے
ہمارے آنسو میں رنگ مت بھر
میاں یہ پانی ہے خوں نہیں ہے
گئے وہ دن جب میں سوچتا تھا
جو یوں نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے
بہشت ہو یا زمین افضل
مجھے کہیں بھی سکوں نہیں ہے