عشق میں شعلہ بیانی کی طلب تھی مجھ کو (افضل خان)

عشق میں شعلہ بیانی کی طلب تھی مجھ کو

اس حقیقت میں کہانی کی طلب تھی مجھ کو

رات سویا میں ترا نقش سرہانے رکھ کر

خواب میں مصرعئہ ثانی کی طلب تھی مجھ کو

میں خود آنسو کی طرح آنکھ میں آیا تھا

اپنے اندر ہی روانی کی طلب تھی مجھ کو

تیری ضد پر ہی ترے دل میں سکونت کی ہے

ورنہ کب نقل مکانی کی طلب تھی مجھ کو

دل کے صحرا نے مجھے موت پہ آمادہ کیا

ڈوبتے وقت بھی پانی کی طلب تھی مجھ کو

اس لیے میں نے محبت کا ارادہ باندھا

چند لفظوں کے معانی کی طلب تھی مجھ کو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *