نہ طے کرتا تو رہتا قصئہ تیغوں گلوں برسوں
خدا رکھے تجھے قاتل رہے دنیا میں تو برسوں
خدا کی شان واعظ بھی ہجوئے مے کرے مجھ سے
کہ جس نے ایک اک ساغر پہ توڑا ہے وضو برسوں
بہارِ گل میں نکلے خوب ارماں دشتِ وحشت کے
رفو گر نے کیا دامن کی کلیوں پر رفو برسوں
قفس کی راحتوں نے یاد گلشن کی بھلا ڈالی
نہ کی صیاد کے گھر آشیاں کی آرزو برسوں
قفس میں خواب جب دیکھا کوئی دیکھا بہاروں کا
دماغِ اہلِ گلشن میں رہی گلشن کی بو برسوں
قمر یہ کیا خبر تھی وہ ہمارے دل میں رہتے ہیں
رہی جن کے لئے دیر و حرم میں جستجو برسوں