وصل کا شکریہ مگر دل کو ملال اور تھا
تیرا جواب اور ہے میرا سوال اور تھا
گردشِ روزگار میں آنے کے ہم نہیں میاں
عشق کی بات چھوڑیئے عشق کا جال اور تھا
دفعتاً ایک لہر پاؤں ہمارے پڑ گئی
گھاٹ سے لوٹ آئے ہیں ورنہ خیال اور تھا
شہر کے عین وسط میں بند گلی سے اس طرف
کاسہ اٹھائے شخص کا ماضی میں حال اور تھا