یہ گنجِ آب تو ہے فقط زائرین کے لیے
سمجھ سکو تو گھاؤ ہے کنواں زمیں کے لیے
پلٹ کے تیرے پاس آگیا ہوں اے اجاڑ دشت
کسی بھی دل میں جا نہیں ترے مکین کے لیے
رگوں میں اب جو لہر ہے وہ خوں نہیں ہے زہر ہے
ضروری ہو چکے ہیں سانپ آستین کے لیے
مرا گواہ آ گیا ہے عین فیصلے کے وقت
برا شگون ہے مرے مخالفین کے لیے
تھے خالی ہاتھ ہم آئے جب ہجرتوں کے قافلے
سو گھر کو نصف کر دیا مہاجرین کے لیے
میں انتقام لوں گا دوستوں میں پھوٹ ڈال کر
سزا تو ہونی چاہیے منافقین کے لیے