مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے
نگاہ سے بھی بدن پر نشان پڑتا ہے
جرم کا عزم پنپتا نظر نہیں آتا
کہ راستے میں صنم کا مکان پڑتا ہے
فقیہِ شہر کو جب کوئی مشغلہ نہ ملے
تو نیک بخت گلے میرے آن پرتا ہے
ہمیں خبر ہے حصولِ مراد سے پہلے
خراب ہونا بھی اے مہربان پڑتا ہے
عدم نشیمنِ دل بدگمان نہ ہو جائے
نہ جانے، کب کسی بجلی کا دھیان پڑتا ہے