اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
تو میں مرنے سے درگزرا مِرے کس کام آئے گا
عطا کی جب کہ خود پیرِ مغاں نے پی بھی لے زاہد
یہ کیسا سوچنا ہے تجھ پہ کیوں الزام آئے گا
شبِ ہجراں کی سختی ہو تو لیکن یہ کیا کم ہے
کہ لب پر رات بھر رہ رہ کے تیرا نام آئے گا
کہاں سے لاؤں صبرِ حضرتِ ایوب اے ساقی
خُم آئے گا ، صراحی آئے گی، تب جام آئے گا
گلی میں یار کی اے شاد سب مشتاق بیٹھے ہیں
خدا جانے وہاں سے حکم کس کے نام آئے گا