فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میان خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اِس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تِری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے، کیا کر چلے؟