وصال رُت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے (نوشی گیلانی)

اداس شام کی ایک نظم

وصال رُت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے

کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے

تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پرحنا بنے گا

تو سوچ لوں گی

رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے

ہمارے باغوں میں گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر نہ پائے تو یہ نہ کہنا

کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں

اگر کوئی شام یوں بھی آئے کہ جس میں ہم تم لگیں پرائے

تو جان لینا

کہ شام بے بس تھی شب کی تاریلیوں کے ہاتھوں

تمہاری خواہش کی مٹھیاں بے دھیانی میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا

کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے

تمہارے ہاتھوں کے لمسِ تازہ کی خواہشوں میں

بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے

مگر یہ خدشے، یہ وسوسے تو تکلفاً ہیں

جو بے ارادہ سفر پہ نکلیں

تو یہ تو ہوتا ہے یہ تو ہو گا

ہم اپنے جذبوں کو منجمد رائیگانیوں کے سپرد کر کے

یہ سوچ لیں گے

کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی

سفر کا آغاز کر چکا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *