جس میں وہ جلوہ نما تھا دلِ شیدا ہے وہی
ہم سے پردہ ہے مگر محملِ لیلا ہے وہی
جو نکل جائے تمنا نہیں کہتے اس کو
جو کھنکتی رہے پہلو میں تمنا ہے وہی
لے چلے دل میں تِرا داغِ محبت واے
جان دے کر جو خریدا ہے یہ سودا ہے وہی
عشق کو حسن سے بڑھ کر ہے زمانے میں قیام
گل تو دو دن نہ رہا بلبلِ شیدا ہے وہی
نام بیخود ہے تو مے خار بھی ہو گا وہ ضرور
پارسا ہم تو سمجھتے نہیں کہتا ہے وہی