اسیرؐ جسم ہوں ، معیادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے ، خدا معلوم
تِری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مِری مٹی کہاں کی ، کیا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزہ تو یہ ہے کہ منزل نہ راستہ معلوم
سُنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سُنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شاد
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم