جتنے ستم کیے تھے کسی نے عتاب میں (سیماب اکبر آبادی)

جتنے ستم کیے تھے کسی نے عتاب میں

وہ بھی ملا لیے کرمِ بے حساب میں

حسرت کو گھر کہیں نہ ملا اضطراب میں

لُٹنے کو آگئی دلِ خانہ خراب میں

اُٹھا ہے ابرِ مے کدہ دستِ دعا کے ساتھ

اتنی برس پڑی کہ نہالوں شراب میں

آ اے گلِ فسردہ ! لگا لوں تجھے گلے

تو بھی تو میری طرح لُتا ہے شباب میں

ہر چیز پُر بہار تھی ، ہر شے میں حُسن تھا

دنیا جوان تھی مِرے عہدِ شباب میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *