نامہ گیا کوئی ، نہ کوئی نامہ بر گیا (سیماب اکبر آبادی)

نامہ گیا کوئی ، نہ کوئی نامہ بر گیا

تیری خبر نہ آئی زمانہ گزر گیا

جنت بھی خوب بھر گئی ، دوزخ بھی بھر گیا

جوشِ جنوں بتائے مجھے میں کدھر گیا

ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں

روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا

اب مجھ کو ہے قرار تو سب کو قرار ہے

دل کیا ٹھہر گیا کہ زمانہ ٹھہر گیا

یارب نہیں میں واقفِ رودادِ زندگی

آج ہی یاد ہے کہ جیا اور مر گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *