اب نہیں لوٹ کے آنے والا
گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا
ہو گئیں کچھ اِدھر ایسی باتیں
رُک گیا روز کا آنے والا
عکس آنکھوں سے چرا لیتا ہے
اک تصویر بنانے والا
لاکھ ہونٹوں ہی ہنسی ہو لیکن
خوش نہیں خوش نظر آنے والا
زد میں طوفاں کی آیا کیسے
پیاس ساحل سے بجھانے والا
رہ گیا ہے مرا سایا بن کر
مجھ کو خاطر میں نہ لانے والا
بن گیا ہم سفر آخر نظمی
راستہ کاٹ کے جانے والا