شاعرِ فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں (جگر مراد آبادی)

شاعرِ فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں

رُوح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں

آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں

جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

جس قدر افسانئہ ہستی کو دہراتا ہوں میں

اور بھی بیگانئہ ہستی ہوا جاتا ہوں میں

جب مکان و لامکاں سب سے گزر جاتا ہوں میں

اللہ اللہ تجھ کو خود اپنی جگہ پاتا ہوں میں

تیری صورت کا جو آئینہ اسے پاتا ہوں میں

اپنے دل پر آپ کیا کیا ناز فرماتا ہوں میں

یک بیک گھبرا کے جتنی دور ہٹ جاتا ہوں میں

اور بھی اس شوخ کو نزدیک تر پاتا ہوں میں

میری ہستی شوقِ پیہم میری فطرت اضطراب

کوئی منزل ہو مگر گزرا چلا جاتا ہوں میں

ہائے ری مجبوریاں ترکِ محبت کے لیے

مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور ان کو سمجھاتا ہوں میں

میری ہمت دیکھنا میری طبیعت دیکھنا

جو سلجھ جاتی ہے گتھی پھر سے الجھاتا ہوں میں

حسن کو کیا دشمنی ہے عشق کو کیا بیر ہے

اپنی ہی قدموں کی خود ہی ٹھوکریں کھاتا ہوں میں

دل مجسم شعر و نغمہ وہ سراپا رنگ و بو

کیا فضائیں ہیں کہ جن میں حل ہوا جاتا ہوں میں

تا کجا ضبطِ محبت تا کجا دردِ فراق

رحم کر مجھ پر کہ تیرا راز کہلاتا ہوں میں

واہ رے شوقِ شہادت کوئے قاتل کی طرف

گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں

یا وہ صورت خود جہانِ رنگ و بو محکوم تھا

یا یہ عالم اپنے سائے سے دبا جاتا ہوں میں

دیکھنا اِس عشق کی یہ طرفہ کاری دیکھنا

 وہ جفا کرتے ہیں مجھ پر اور شرماتا ہوں میں

اک دل ہے اور طوفانِ حوادث اے جگر

اک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *