راستے کی تھکن
آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے
کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا ہوں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے