خوشی کا گیت
بیت گیا طوفان پریت کا
بیت گیا طوفان
ساری رات کٹھن تھی کتنی جیسے جلے پہاڑ
درد کا بادل گرجا جیسے بندوقوں کی باڑ
بجلی بن کر کڑک رہے تھے چاہت کے ارمان
بیت گیا طوفان
ختم ہوا وہ ارمانوں کے پاگل پن کا زور
مدھم ہو کر مِٹا سلگتی تیز ہوا کا شور
دہک دیک کر بجھ گیا آخر یہ دل کا شمشان
بیت گیا طوفان