سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نگاہِ آئنہ معلوم ، عکس نامعلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو
زمیں کے گرد بھی پانی زمیں کی تہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑاہے جو تیرتا ہی نہ ہو
نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اُس شوخ کو پتا ہی نہ ہو