پچھلی مسافتوں کے نشاں دیکھتے چلیں
روشن ہے بزمِ شعلہ رخاں دیکھتے چلیں
رستے میں ایک گھر ہے جہاں منتظر ہیں لوگ
آئیں گے بار بار کہاں دیکھتے چلیں
موسم کئی طرح کے گزارے ہیں دوستو
اب کے ہے کیا مزاجِ خزاں دیکھتے چلیں
یہ کون سی جگہ ہے جہاں آس پاس بھی
آہٹ کوئی، نہ آہ و فغان دیکھتے چلیں
پتھر کے دھڑ لیے ہوئے پھرتے ہیں سارے لوگ
آگے ہے ایک شہرِ گماں دیکھتے چلیں
شاید یہیں کہیں پہ جلائی تھیں کشتیاں
کیا اب بھی اٹھ رہا ہے دھواں دیکھتے چلیں
اب کے سفر میں ہم نے سبھی کچھ لٹا دیا
کہتے ہیں کیا یہ دیدہ وراں دیکھتے چلیں