جی جائے پر جفا میں ہمارا زیاں نہیں
قدرِ وفا نہیں ہے اگر امتحاں نہیں
دل کا گِلہ، فلک کی شکایت یہاں نہیں
وہ مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں
ہم آئے ہیں جہاں سے وہیں کا خیال ہے
جز شاخِ سدرہ ہم کو سرِ اشیاں نہیں
اک حالِ خوش میں بھول گئے کائنات کو
اب ہم وہاں ہیں مطرب و ساقی جہاں نہیں
کیوں یہ ہجومِ شور و شغب ہے نشور میں
ایسا تو شیفتہ ہمیں خوابِ گراں نہیں