اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس درد دوستی کی دوا ہو گیا ہو میں
قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں
نا آشنا ہیں رتبئہ دیوانگی سے دوست
کم بخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں
ہنسنے کا اعتبار نہ رونے کا اعتبار
کیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں
ہاں کیفِ بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس ہو رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں