جوانی کے ترانے گارہا ہوں
دبی چنگاریاں سلگا رہا ہوں
مِری بزمِ وفا سے جانے والو
ٹھہر جاؤ کہ میں بھی آرہا ہوں
بتوں کو قول دیتا ہوں وفا کا
قسم اپنے خدا کی کھا رہا ہوں
ہوئی جاتی ہے کیوں بے تاب منزل
مسلسل چل رہا ہوں آرہا ہوں
نئے کعبے کی بنیادوں سے پوچھو
پرانے بت کدے کیوں ڈھا رہا ہوں
حفیظ اپنے پرائے بن رہے ہیں
کہ میں دل کو زباں پر لا رہا ہوں