ایکسٹیسی
سبز مدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا
گرمئی رُخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمی بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم کھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دو دلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اِک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں، ٹھہر جائیں ذرا