مستوں پہ انگلیاں نہ اٹھاؤ بہار میں
دیکھو تو، ہوش بھی ہے کسی ہوشیار میں
کچھ محتسب کو خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ
پیتا ہوں چھپ کے دامنِ ابرِ بہار میں
وہ سامنے دھری ہے صراحی بھری ہوئی
ددونوں جہاں ہیں آج مرے اختیار میں
جھوٹی تسلیوں سے نہ بہلاؤ، جاؤ جاؤ
جاؤ، کہ تم نہیں ہو مرے اختیار میں
وہ عندلیبِ گلشنِ معنی ہوں میں حفیظ
سوزِ سخن سے آگ لگادوں بہار میں