نیل فلک کےا سم میں نقشِ اسیر کے سبب
حیرت ہے آب و خاک میں ماہِ منیر کے سبب
بن میں علاحدگی سی ہے اس کے جمالِ سبز سے
دائم فضا فراق کی شجرِ پیر کے سبب
وسعتِ شہر تنگ دل سرما کی صبح سرد میں
جاگی ہے ڈر کے خواب سے صورتِ فقیر کے سبب
صحن مکاں میں شل ہے دستِ دعائے آگہی
دل میں ہے شوق بے حساب حد کی لکیر کے سبب
زخم وجود کی دوا بس وہی اخری صدا
زندہ ہوں جس کے شوق میں صبر کبیر کے سبب
سحر ہے موت میں منیر جیسے ہے سحر آئنہ
ساری کشش ہے چیز میں اپنی نظیر کے سبب